Tuesday, April 11, 2023

تسکینِ جاں

دنیا کو روتے دیکھا ہے
لوگوں کو سسکتے پایا ہے

مردوں کو کھایا کرتے ہیں
زندوں کو جلایا کرتے ہیں


قرآں کو بھی جلاتے ہیں
وہ قاتل کو سرہاتے ہیں


ہویٰ و ہوس کے پجاری ہیں
رشتوں کے بھی بیوپاری ہیں


سینوں میں پتھر رکھتے ہیں
خدا سے بالکل نہیں ڈرتے ہیں


کتنی آنکھیں پرنم ہیں
دل کئی محو غم ہیں


آنکھیں یہ سب دیکھتی ہیں
اور کھلی بھی رہتی ہیں


میں یہ سنتی رہتی ہوں 
پر سننے کی خواہش باقی ہے


میرا دل بھی روتا ہے
پھر بھی دھڑکتا رہتا ہے


سانسیں گھٹتی جاتی ہیں 
پر جینے کی تمنا باقی ہے


پھر بھی میں زندہ رہتی ہوں
اور سارے دکھ میں سہتی ہوں


ان آنکھوں کو وہ دیکھنا ہے
ان کانوں کو انھیں سننا ہے


زہرا کا دل ہے بے قرار 
اور اسکا مقصد انتظار


جب آپ ظہور دکھائیں گے
 تسکینِ جاں بن جائیں گے




2 comments:

Feel free to comment!