کہا یہ اس نے شورش میں بھی محو آس رہتا ہے
دیا جواب کے میرا من انتظار کرتا ہے
اس نے کہا یہ غیبت تو بڑی عجیب سی ہے
میں نے کہا شیطان کرے گمراہ پر پردے میں رہتا ہے
خدا کے عدل کا تقاضا تو سمجھ ناداں
زمانہ کہاں ہادی سے خالی رہتا ہے
اس نے کہا غائب امام کا فائدہ کیا ہے
میں نے کہا ابر سے بھی سورج محو فیض رہتا ہے
اس نے کہا وجود امام درک کیسے کرتے ہو
میں نے کہا عشق بن کے دل میں دھڑکتا ہے
بزم ہو یا تنہائی وہ پاس مرے ہوتے ہیں
یاد امام سے دل میں سویرا رہتا ہے
اس نے کہا حفاظت کا سبب غیبت کیوں ہوا
میں نے کہا مشییت رب کو تو نہیں سمجھتا ہے
حفاظت عیسی کی کیا مشکل تھی زمیں پہ
خدا پھر بھی آسماں پر اٹھا لیتا ہے
اس نے کہا ایسی لمبی عمر کس کی ہوئی بھلا
میں نے کہا نوح و خضر و عیسی کو بھول جاتا ہے
اس نے کہا صدیوں سے منتظر ہو تھکتے نہیں
میں نے کہا دعوی ایماں پہ خدا امتحان دیتا ہے
وہ آئیں تو ساری بحثیں تمام ہوں زہرا
ہجر مولا میں تو اب ہر دل سلگتا ہے