غیبت کے دور میں جبکہ ہم امام سے بظاہر دوری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ گو کہ امامؑ ہمارے درمیان ہیں مگر ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے، وہ ہمیں سنتے ہیں مگر ہم انہیں نہیں سن سکتے، ہم انکی زیارت سے محروم ہیں۔ اس یتیمی کے دور میں جبکہ ہم اپنے امام ولد الشفیق سے دور ہیں ، جبکہ یہ دوری ہی ہمارے لیے بھت بڑا اور کڑا امتحان ہے، مگر اس پرآشوب دور میں اپنے ایمان کی حفاظت بھی انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ روز بروز نئے فتنے ابھرتے ہیں۔ مومن مرتد مسلمان مشرک ہوئے جاتے ہیں۔ یاد امام عالی مقام ایک ایسی سپر ہے جو یقینا ان فتنوں سے بچنے میں انتہائی مضبوط پناہ گاہ ہے۔ یہ یاد اور اس سے مسلسل منسلک رہنا تاریکیوں میں اجالے کا کام کرتا ہے۔ یاد امامؑ نہ صرف ایک منتظر کو ہر قسم کے ماحول میں مسلسل عمل کی ترغیب دیتی ہے بلکہ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں منتظر کا حوصلہ پست نہیں ہونے دیتی۔
ایک منتظر پیغمر اسلام اور آئمہ کے اقوال جو امام مھدیؑ کے بارے میں ہیں ان سے اپنے ایمان میں اضافہ کرتے ہوئے امام کے ظہور اور بعد از ظہور کے حالات کو اپنے دل کی آنکھ سے دیکھتا اور اپنی روح سے اسے محسوس کرتا ہے ۔ وعدہ الہی کا یقین اسکے جسم و روح کو سرشار کیے رکھتا ہے اور گویا وہ منظر اسکی آنکھوں میں سما جاتا ہے اور یہ یاد نہ اسے کبھی مایوس ہونے دیتی ہے اور نہ متزلزل۔
یاد امام حق کے راستے پر ثابت قدمی عطا کرتی ہے۔ اس یاد کے ہوتے ہوئے نہ تو راستے کی تکلیفیں دوشوار لگتی ہیں اور نہ ساتھیوں کی کمی۔ اگر لوگ ساتھ چھوڑ بھی جائیں تو منتظر کے پاس یاد امام کا ایک ایسا قیمتی، انمول اور بے پایاں سرمایہ ہے جو بیکراں اور لامتناہی ہے اور کیوں نہ ہو یہ یاد اس ہستی سے منصوب ہے جسکا انتظار انبیاء نے کیا ۔ آئمہ نے کیا۔ وہ ہستی جو کائینات کے باقی ہونے اور زمین اور آسمان کے پیوست رہنے کا وسیلہ ہیں ۔ جو ہدایت کے مینار ہیں ، جو ہر مومن و مومنہ کی تمنا ہیں ، جو بارش کے برسنے ، پھولوں کے کھلنے ، پرندوں کے چہیچہانے اور ہماری سانسوں کے چلنے کا سبب ہیں۔
No comments:
Post a Comment
Feel free to comment!