Friday, October 25, 2019

انتظارِ عشق


عشق کے مراحل سے اتصال باقی ہے
گو کہ سانس آتا ہے پر کمال باقی ہے

سوچتی ہوں میں اکثر آپکی زیارت ہو
خواب وہ نہیں آیا وہ خیال باقی ہے

پانی ہی نکلتا ہے کب لہو نے بہنا ہے
مولا جو نہیں دکھتے اورِ وصال باقی ہے

بعدِ موسمِ پت جھڑ یہ جو گل مہکتے ہیں
مہدیِ حسنؑ تیرا جو جمال باقی ہے

دینِ حق کے پیروکار کس لیے ہو گھبراتے
دین ہو گا حاوی اس کا کمال باقی ہے

ظالموں نے دیکھو یاں کیا کیا ستم ڈھائے
عسکریؑ تو زندہ ہیں ان کی آل باقی ہے

ان کے قدموں میں گر کر خوب روئے گی زہرا
اذن دیجیے مولاؑ اک سوال باقی ہے
التماسِ دعا: زہرا کاظمی


No comments:

Post a Comment

Feel free to comment!